سنتیں اور آداب

  • Admin
  • Dec 23, 2021

داڑھی کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟؟ بالخصوص ہونٹ کے نیچے کے بال داڑھی کے حکم میں ہے کہ نہیں؟؟

اس حوالے سے سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:

داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں، ٹھوڑی، پر جمتے ہے، اور عرضاً {چوڑائی میں} اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ میں ہوتا ہے, جس طرح بعض لوگوں کے کانوں پر رونگٹے ہوتے ہیں، وہ داڑھی سے خارج ہیں، یوں ہی گالوں پر جو خفیف بال کسی کے کم کسی کے آنکھوں تک نکلتے ہیں، وہ بھی داڑھی میں داخل نہیں یہ بال قدرتی طور پر موئے ریش سے جدا ممتاز ہوتے ہیں, اس کا مسلسل راستہ جو قلموں کے نیچے سے ایک مخروطی شکل پر جانب ذقن جاتا ہے, یہ بال اس راہ سے جدا ہوتے ہیں نہ ان میں موئے محاسن کے مثل قوت نامیہ، ان کے صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بسا اوقات ان کی پرورش باعثِ تشویہِ خلق وتقبیحِ صورت ہوتی ہے جو شرعاً ہرگز پسندیدہ نہیں۔

(العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ 22/ 596)

فتاوی عالمگیری میں ہے کہ (نتف الفنیکین بدعۃ وھو جنب العفقۃ وھی شعر الشفۃ السلفی)دونوں کوٹھوں کو اکھاڑنا بدعت ہے، اور وہ بچی کے دونوں جانب کے بال ہیں، اور بچی کے نچلے ہونٹ کے بال ہیں، ﴿عالمگیری 5}

اور سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں؛- بال بداہۃً سلسلہ ریش میں واقع ہیں' کہ اس سے کسی طرح امتیاز نہیں رکھتے تو انہیں داڑھی سے جدا ٹھہرانے کی کوئی وجہ وجیہ نہیں- وسط میں جو بال ذرا سے چھوڑے جاتے ہیں، جنہیں عربی میں عنفقۃ اور ہندی میں بچی کہتے ہیں، داخل ریش ہیں، (جیساکہ امام بدر الدین عینی نے اس کی تصریح فرمائی اور ان سے سیرت شامیہ میں نقل کیا گیا ہے )

لہذا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہوا کہ جو کوئی انہیں منڈاتا اس کی گواہی رد فرماتے ہیں، (جیساکہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے مدارج النبوۃ میں ذکر فرمایا) تو بیچ میں یہ دونوں طرف کے بال جنہیں عربی میں فنیکین ہندی میں کوٹھے کہتے ہیں, کیوں کر داڑھی سے خارج ہوسکتے ہیں، داڑھی کے باب میں حکم‌ احکم حضور پرنور سید عالم ﷺ (داڑھیاں بڑھاؤ، اور زیادہ کرو,) ہے تو اس کے کسی جز کا مونڈنا جائز نہیں (صحیح البخاری کتاب اللباس باب اعفاء اللحی )

لاجرم علماء نے تصریح فرمائی کہ کوٹھوں کا نتف یعنی اکھیڑنا بدعت ہے، امیر المومنین عمر ابن عبدالعزیز رضی اللّٰہ عنہ نے ایسے شخص کی گواہی رد فرمائی (العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ 22/ 597)

اور حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں؛ بچی کے اغل بغل کے بال مونڈانا یا اکھیڑنا بدعت ہے،، ﴿بہار شریعت 16} لیکن ایک بات اور ہے کہ اگر بچی کے بال اتنے طویل اور کثیر ہوجائیں، کہ کھانے پینے اور کلی کرنے میں رکاوٹ بنیں، تو انہیں بقدر حاجت کاٹنا جائز ہے (یجوز قص الاشعار التی کانت من الفنیکین اذا زحمت فی المضمضۃ او الاکل او الشرب) اگر نچلے ہونٹ کے دونوں کناروں کے بال کلی کرنے اور کھانے پینے میں رکاوٹ ہوں، تو انہیں کترنا جائز ہے اور سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہاں اگر یہاں بال اس قدر طویل وانبوہ ہوکہ کھانا کھانے، پانی پینے، کلی کرنے میں مزاحمت کریں' تو ان کا قینچی سے بقدر حاجت کم کر دینا روا ہے۔

(العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ 22/ 599)

یاد رکھیں:

داڑھی حد شرع سے کم کرانا اور اس پر اصرار کرنا گناہ کبیرہ ہے کہ قطع لحیہ کو فقہاء کرام ناجائز فرماتے ہیں، اور صغیرہ پر اصرار کبیرہ وفسق ہے۔

(فتاویٰ امجدیہ جلد چہارم صفحه 174)[[ماخوذ؛ فتاویٰ غوثیہ جلد اول صفحه 294]]

                           واللہ اعلم بالصواب

محمد عمران رضا 

 

موبائل میں قرآن پاک ہے تو اسے واش روم میں لے جانا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگرموبائل جیب میں ہے تو اگرچہ اس میں قرآن پاک موجود ہو تب بھی اس کو واش روم میں لے کرجاسکتے ہیں،اسی طرح اگرموبائل جیب میں نہیں ہے ،ہاتھ میں ہے مثلا اندھیرا ہے اورموبائل کی ٹارچ روشن کرکے واش روم جانا ہے تو اس میں بھی اگرموبائل کی اسکرین پرقرآن پاک کھلا ہوا نہیں ہے تو بھی لے کے جاسکتے ہیں ،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مولانا فراز مدنی

 

قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

  بغیرکسی صحیح عذرکےجان بُوجھ کرقبلہ شریف کی طرف ٹانگیں پھیلانا، تُھوکنا اور پیشاب کرنا شرعاً ممنوع و مکروہ افعال ہیں کہ اس طرح کرنے میں قبلہ شریف کی بےادبی ہے۔ان افعال میں ٹانگیں پھیلانے کا حکم مکروہ ہے، جبکہ تُھوکنے کی ممانعت زیادہ شدید ہے اور اسے حدیثِ مبارک میں اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوایذا دیناقراردیا ہے اور علّامہ عینی  علیہ الرحمۃ نے تو علّامہ قرطبی مالکی علیہ الرحمۃ کے حوالے سےاسے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے اور قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت تو صریح احادیث اور تصریحاتِ فقہائے احناف کے مطابق گناہ ہے اور اس پر متعدد احادیثِ طیّبہ موجود ہیں، بلکہ اس معاملے میں تو قبلہ کو پیٹھ کر کےبھی پیشاب یا پاخانہ کرنا،ناجائز و گناہ ہے،لہٰذا یہ کہنا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں،بالکل غلط ہےاور انجانے سے مراد اگر قبلہ کی جہت معلوم نہ ہو نا ہے تو پھر گناہ نہیں، لیکن جیسے ہی معلوم ہو،تو فوراً شریعتِ مطہرہ کے حکم کے مطابق اپنے فعل کی اصلاح کر لے،لیکن اگر انجانے سے مراد شرعی مسئلے سے لاعلمی ہے،تو یہ کوئی عذر نہیں کہ دارالاسلام میں شرعی مسائل سے جہالت عذر نہیں ہوتی، بلکہ حکم یہ ہے کہ شرعی مسائل سیکھے۔یادرہے!یہ احکام اس صورت میں ہیں کہ کوئی بداعتقادی نہ ہو، ورنہ معاذ اللہ کسی کا یہ اعتقاد ہو کہ قبلہ کوئی ایسی تعظیم والی شئ نہیں ہےاور اس وجہ سے ان میں سے کسی فعل کا ارتکاب کرے، تو قبلہ شریف کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اُس پر حکم کفر ہو گا، لیکن کسی مسلمان سے ایسی سوچ متصور نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی قاسم صاحب

 

کیا دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا سنت ہے؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

جی ہاں ! دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا سنت ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ دعا مانگتے ہوئے گویا بندے کے ہاتھ خیر و برکت سے بھر جاتے ہیں ، تو اب حکم ہے کہ وہ خیر و برکت اپنے اعلیٰ و اشرف حصے یعنی چہرے پر اُلٹا لے ، تاکہ اس کے ذریعے وہ خیر و برکت سارے بدن میں سرایت کر جائے ۔

جامع ترمذی میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع يديه في الدعاء لم يحطهما حتى يمسح بهما وجهه ‘‘ ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے ، تو چہرہ انور پر ہاتھ پھیرے بغیر نیچے نہ کرتے۔

( جامع الترمذی ، ابواب الدعوات ، باب ماجاء فی رفع الایدی عند الدعاء ، ج 2 ، ص 649 ، مطبوعہ لاھور)

ابو داؤد شریف میں حدیثِ پاک ہے : ’’ ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا دعا فرفع يديه مسح وجهه بيديه ‘‘ ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب دعا فرماتے ، تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ( اور ) ہاتھوں کو چہرہ انور پر پھیر لیتے ۔

( سنن ابی داؤد ، باب الدعاء ، ج 1 ، ص 219 ، مطبوعہ لاھور )

اس حدیث شریف کی شرح میں علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ عند فراغه تفاؤلا وتيمنا أن كفيه ملئتا خيرا فأفاض منه على وجهه ‘‘ ترجمہ : یعنی دعا سے فارغ ہونے کے وقت ( ہاتھ چہرہ انور پر پھیرتے ) تاکہ نیک فال ہوسکے اور برکت حاصل کرنے کے لیے کہ ہاتھ خیر سے بھر گئے ہیں اور اس خیر کو چہرے پر ڈال لیا ہے ۔       

( فیض القدیر ، جلد 5 ، صفحہ 169 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

ابو داؤد شریف میں ہی سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’ سلوا الله ببطون أكفكم ولا تسألوه بظهورها فاذا فرغتم فامسحوا بها وجوهكم ‘‘ ترجمہ : اللہ تعالیٰ سے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے ساتھ سوال کرو ، ہاتھوں کی پشت کے ساتھ سوال نہ کرو اور جب دعا سے فارغ ہوجاؤ ، تو ہاتھوں کو چہرے پر پھیر لیا کرو ۔

( سنن ابی داؤد ، باب الدعاء ، ج 1 ، ص 218 ، مطبوعہ لاھور )

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:’’ کیونکہ پھیلے ہوئے ہاتھوں پر اﷲ کی رحمت اترتی ہے ۔ ان ہاتھوں کے منہ پر پھیر لینے سے رحمت منہ پر پہنچ جاتی ہے ۔ یہ عملی سنت بھی ہے ۔ اتباع سنت میں برکت ہے ۔ ‘‘

(مرأۃ المناجیح ، جلد 3 ج، ص 298 ، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، کراچی )

اوریہی عمل صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت وہب بن کیسان رحمۃ اللہ علیہ تابعی بزرگ فرماتے ہیں:’’ رأيت ابن عمر و ابن الزبير يدعوان يديران بالراحتين على الوجه ‘‘ ترجمہ : میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ جب  دعا کرتے ، تو اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیر لیتے ۔

( الادب المفرد للامام البخاری ، باب رفع الایدی فی الدعاء ، صفحہ 214 ، مطبوعہ دار البشائر الاسلامیہ ، بیروت )

اس عمل کے سنت ہونے سے متعلق در مختار میں ہے : ’’ والمسح بعده على وجهه سنة ‘‘ ترجمہ : دعا کے بعد ہاتھ منہ پر  پھیرنا سنت ہے ۔

 ( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الصلوٰۃ ، ج 2 ، ص 264 ، مطبوعہ کوئٹہ )

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:’’دعا کے بعد چہرے پرہاتھ پھیرنا مسنون ہوا کہ حصول مرادقبول دعا کی فال ہو ۔ گویادونوں ہاتھ خیروبرکت سے بھرگئے ، اس نے وہ برکت اعلیٰ و اشرف اعضاپراُلٹ لی کہ اس کے توسط سے سب بدن کو پہنچ جائے گی۔‘‘

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 7 ، صفحہ 612 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی قاسم صاحب

 

کن کن مواقع پر  سلام کرنا منع ہے؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مسجد میں جولوگ تلاوت ِ قرآن ،تسبیح ودُرود ،وظائف میں مشغول ہوں ،یانماز کے انتظار میں بیٹھے ہوں، تومسجد میں آنے والا اُنہیں سلام نہ کرے اسلئے کہ یہ سلام کا وقت نہیں ، ایسے موقع پراگر کسی نے سلام کردیا تو جس کو سلام کیا ہے اُس کو اختیار ہےکہ سلام کا جواب دے ،یا نہ دے۔ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں اس لیے بیٹھا ہے کہ لوگ اس کے پاس ملاقات کو آئیں تواس سے ملاقات کرنے کے لئے  آنے والے اسے سلام کریں گے۔

مزید چند مقامات کہ جہاں سلام کرنا ممنوع ہے اُن کے متعلق مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:کوئی شخص تلاوت میں مشغول ہے یا درس و تدریس یا علمی گفتگو یا سبق کی تکرار میں ہے تو اس کو سلام نہ کرے۔ اسی طرح اذان و اقامت و خطبہ جمعہ و عیدین کے وقت سلام نہ کرے۔ سب لوگ علمی گفتگو کررہے ہوں یا ایک شخص بول رہا ہے باقی سن رہے ہوں،دونوں صورتوں میں سلام نہ کرے، مثلاً عالم وعظ کہہ رہا ہے یا دینی مسئلہ پر تقریر کررہا ہے اور حاضرین سن رہے ہیں، آنے والا شخص چپکے سے آکر بیٹھ جائے سلام نہ کرے۔

(بہارِ شریعت جلد3،صفحہ 462،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی فضیل صاحب